اک اندھی دوڑ تھی اکتا گیا تھا
میں خود ہی صف سے باہر آ گیا تھا
نہ دل بازار میں اس کا لگا پھر
جسے گھر کا پتا یاد آ گیا تھا
فقط اب ریت کی چادر بچھی ہے
سنا ہے اس طرف دریا گیا تھا
اسی نے راہ دکھلائی جہاں کو
جو اپنی راہ پر تنہا گیا تھا
مجھے جلنا پڑا مجبور ہو کر
اندھیرا اس قدر گہرا گیا تھا
کوئی تصویر اشکوں سے بنا کر
فصیل شہر پر چپکا گیا تھا
سمجھ آخر میں آیا واہمہ تھا
جو کچھ اب تک سنا سمجھا گیا تھا
غزل
اک اندھی دوڑ تھی اکتا گیا تھا
منیش شکلا