اک عجب عالم ہے دل کا زندگی کی راہ میں
دیکھتا ہوں کچھ کمی سی حسن مہر و ماہ میں
اس کے ہوتے بھی میں اک احساس تنہائی میں ہوں
جلوہ گر ہے وہ جو مدت سے دل آگاہ میں
دور ہو کر مجھ سے چلتی ہے ہوائے جاں فزا
جی رہا ہوں پھر بھی ایسے موسم جاں کاہ میں
ہر قدم پر کیوں ڈراتی ہے مجھے یہ زندگی
یہ جو میری روشنی تھی ظلمتوں کی راہ میں
کیسے اٹھوں تیرے در سے اے جہان آرزو
ایک عالم کو سمیٹے دامن کوتاہ میں
اے پرستاران دنیا دل کی دنیا ہے کچھ اور
کون ٹھوکر کھائے بن رہتا ہے اس کی راہ میں
اب نہ پہچانے کوئی اخترؔ تو اس کا کیا علاج
عمر ساری کاٹ دی ہے تو نے رسم و راہ میں
غزل
اک عجب عالم ہے دل کا زندگی کی راہ میں
اختر سعیدی