اک آس تو ہے کوئی سہارا نہیں تو کیا
رستے میں کچھ شجر تو ہیں سایہ نہیں تو کیا
رہتا ہے کوئی شخص مرے دل کے آس پاس
میں نے اسے قریب سے دیکھا نہیں تو کیا
تو ہی بتا کہ چاہیں تجھے اور کس طرح
یہ تیری جستجو یہ تمنا نہیں تو کیا
ہم دور دور رہ کے بھی چلتے رہے ہیں ساتھ
ہم نے قدم قدم سے ملایا نہیں تو کیا
ریگ رواں کی طرح ہیں سارے تعلقات
تم نے کسی کا ساتھ نبھایا نہیں تو کیا
ویسے ہمیں تو پیاس میں دریا کی تھی تلاش
اب یہ سراب ہی سہی دریا نہیں تو کیا
سوچا بھی تم نے دشت چمن کیسے بن گیا
محنت کا یہ عرق یہ پسینا نہیں تو کیا
محسنؔ مری نگاہ کو اچھا لگا وہی
دنیا کی وہ نظر میں جو اچھا نہیں تو کیا
غزل
اک آس تو ہے کوئی سہارا نہیں تو کیا
محسن زیدی