اک آگ دیکھتا تھا اور جل رہا تھا میں
وہ شام آئی مگر ہاتھ مل رہا تھا میں
یہ عمر کیسے گزاری بس اتنا یاد ہے اب
اداس رات کے صحرا پہ چل رہا تھا میں
بس ایک ضد تھی سو خود کو تباہ کرتا رہا
نصیب اس کے کہ پھر بھی سنبھل رہا تھا میں
بھری تھی اس نے رگ و پے میں برف کی ٹھنڈک
سو ایک برف کی صورت پگھل رہا تھا میں
خدا صفت تھا وہ لمحہ کہ جس میں گم ہو کر
زمیں سے آسماں کے دکھ بدل رہا تھا میں
میں ایک عہد تھا اک عہد کی علامت تھا
ہزار چہروں میں دن رات ڈھل رہا تھا میں
بس ایک ابر کے سائے نے آ لیا مجھ کو
عذاب اوڑھ کے گھر سے نکل رہا تھا میں
غزل
اک آگ دیکھتا تھا اور جل رہا تھا میں
صابر وسیم