عید ہو جائے ابھی طالب دیداروں کو
کھول دو زلف سے گر چاند سے رخساروں کو
لے کے دل چین سے جا بیٹھے وہ گھر میں چھپ کے
اب تو آنکھیں بھی ترسنے لگیں نظاروں کو
پھل یہ قاتل کو دیا میری گراں جانی نے
توڑ کر ڈھیر کیا سیکڑوں تلواروں کو
عین الطاف ہے مذہب میں حسینوں کے ستم
بدشگونی ہے انہیں پوچھنا بیماروں کو
دور ساقی میں بھی الٹی بہی گنگا ہر روز
جب دیا جام مئے ناب تو اغیاروں کو
کبھو سودا کبھو وحشت کبھو غفلت کبھو درد
آگ لگ جائے محبت کے ان آزاروں کو
وہ پری رو ہے پیو شوق سے تم اے تنویرؔ
مے سے پرہیز نہیں چاہیے مے خوارو کو

غزل
عید ہو جائے ابھی طالب دیداروں کو
تنویر دہلوی