EN हिंदी
ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں | شیح شیری
idhar to hum jaan kho rahe hain udhar wo ulfat se ro rahe hain

غزل

ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں

میر محمد سلطان عاقل

;

ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں
کدورتیں عمر بھر کی دل سے وہ آج اشکوں میں دھو رہے ہیں

نہ باز رکھ ہم کو رونے سے تو گریں جو اشکوں کے دانے بہتر
یہ کشت حسرت میں اپنی ہمدم امید کا تخم بو رہے ہیں

ادھر ترقی خیال کو ہے ادھر ترقی جمال کو ہے
وہاں تو مد نظر ہے سرمہ یہاں تصور میں رو رہے ہیں

جہاں ہوا طفل کوئی پیدا کہا یہ ماں نے ابوالبشر کی
مری بھی آغوش ہے کشادہ عبث یہ سامان ہو رہے ہیں

کیا ہے بے جرم قتل مجھ کو ہجوم اغیار و آشنا میں
اور اس پہ دیکھو ڈھٹائی اشکوں سے دامن اپنا بھگو رہے ہیں

نہ پوچھو کچھ معصیت کا عالم فرشتو ہم کیا کہ تم نے بچتے
حقیقت اس کی انہیں سے پوچھو سرائے دنیا میں جو رہے ہیں

خبر وصال عدو کی سن کر وصال کے معنی سوچتے ہیں
انہیں کو واں کچھ نہیں ہے شادی کہ خوش یہاں ہم بھی ہو رہے ہیں

گلہ عبث ان سے کیجے عاقلؔ کیا ہے قسمت نے ان کو غافل
جو در پہ جا کر پکارا میں نے تو بولے کہہ دو کہ سو رہے ہیں