ادھر رہا ہوں ادھر رہا ہوں
کہیں نہیں ہوں مگر رہا ہوں
یہ کیسی آواز آ رہی ہے
یہ کس جگہ سے گزر رہا ہوں
یہ کیسا خدشہ لگا ہوا ہے
یہ کون ہے کس سے ڈر رہا ہوں
ہزاروں سورج بجھے پڑے ہیں
میں اپنے اندر اتر رہا ہوں
لہو کی بو سونگھتے ہیں کتے
ہوا پہ الزام دھر رہا ہوں
کہاں چھپے ہو بتاؤ علویؔ
تلاش برسوں سے کر رہا ہوں

غزل
ادھر رہا ہوں ادھر رہا ہوں
محمد علوی