EN हिंदी
ادھر رہا ہوں ادھر رہا ہوں | شیح شیری
idhar raha hun udhar raha hun

غزل

ادھر رہا ہوں ادھر رہا ہوں

محمد علوی

;

ادھر رہا ہوں ادھر رہا ہوں
کہیں نہیں ہوں مگر رہا ہوں

یہ کیسی آواز آ رہی ہے
یہ کس جگہ سے گزر رہا ہوں

یہ کیسا خدشہ لگا ہوا ہے
یہ کون ہے کس سے ڈر رہا ہوں

ہزاروں سورج بجھے پڑے ہیں
میں اپنے اندر اتر رہا ہوں

لہو کی بو سونگھتے ہیں کتے
ہوا پہ الزام دھر رہا ہوں

کہاں چھپے ہو بتاؤ علویؔ
تلاش برسوں سے کر رہا ہوں