ادھر چراغ جل گئے ادھر چراغ جل گئے
جدھر جدھر اٹھی تری نظر چراغ جل گئے
یہ اور بات رات بھر کا طے نہ کر سکے سفر
مگر یہ کم نہیں کہ وقت پر چراغ جل گئے
ہوا کا ایسا زور تھا کہ اک بلا کا شور تھا
اسی فضا میں جو تھے با ہنر چراغ جل گئے
ہے بات یوں تو رات کی مگر نہ احتیاط کی
تو کیا کرو گے دفعتاً اگر چراغ جل گئے
جو ساتھ صبح سے چلے وہ سارے لوگ دن ڈھلے
اسی طرف کو ہو لئے جدھر چراغ جل گئے
وہ تیرگی کا جال تھا کہ اب سفر محال تھا
ہوا یہ تیرے نام کا اثر چراغ جل گئے
غزل
ادھر چراغ جل گئے ادھر چراغ جل گئے
اخلاق بندوی