ابتدا سا کچھ انتہا سا کچھ
چل تماشا کریں ذرا سا کچھ
سامنے سے یہ کائنات ہٹاؤ
ہو رہا ہے مغالطہ سا کچھ
سر بسر ہوں سلامتی کے سر
میں ہوں رفتار و حادثہ سا کچھ
ایک خطرہ ہے آنے جانے میں
اس سرا میں ہے دوسرا سا کچھ
چاک ادھڑتا ہے خاک اکھڑتی ہے
کوئی ہوتا ہے رونما سا کچھ
اور تو کچھ نہیں ہے مٹنے کو
میں ہی میں ہوں بنا بنا سا کچھ
یہ سرکتے ہوئے زمین پہ لوگ
یہ گنہ سا کچھ اور گلا سا کچھ
وقت پر آگ وقت پر پانی
زندگی بھر کا تجربہ سا کچھ
جو نہ تیرا ہے اور نہ میرا ہے
پھر وہ کیا ہے ترا مرا سا کچھ
جب خدا سا کوئی نہیں تو کیوں
مسئلہ بن گیا خدا سا کچھ
غزل
ابتدا سا کچھ انتہا سا کچھ
شاہین عباس