حضور یار بھی آزردگی نہیں جاتی
کہ ہم سے اتنی بھی دوری سہی نہیں جاتی
خود اپنے سر یہ بلا کون مول لیتا ہے
محبت آپ سے ہوتی ہے کی نہیں جاتی
لہو جلاتی ہے خاموشیوں میں پلتی ہے
حکایت دل سوزاں کہی نہیں جاتی
ہم اس کو کیا کریں تم کو ہے ناپسند مگر
زبان حال سے برجستگی نہیں جاتی
ملا دے خاک میں ہم کو ہزار گردش چرخ
مگر بگولوں سے آوارگی نہیں جاتی
چمن وہ ہو کہ بیاباں بہار ہو کہ خزاں
جنوں کی فطرت جامہ وری نہیں جاتی
اگر غبار ہو دل میں اگر ہو تنگ نظر
تو مہر و ماہ سے بھی تیرگی نہیں جاتی
مہکتی رہتی ہے غربت میں بھی شرافت نفس
گل فسردہ سے خوشبو کبھی نہیں جاتی
چراغ دن میں دھواں ہی دھواں سا لگتا ہے
شراب رات کی شے دن کو پی نہیں جاتی
اگر یقین نہیں ہے نجابت مے پر
تو لاکھ پیتے رہو تشنگی نہیں جاتی
شعور حسن مضمر حجاب میں وامقؔ
برہنہ چہروں سے بے چہرگی نہیں جاتی
غزل
حضور یار بھی آزردگی نہیں جاتی
وامق جونپوری