EN हिंदी
حضور غیر تم عشاق کی تحقیر کرتے ہو | شیح شیری
huzur-e-ghair tum ushshaq ki tahqir karte ho

غزل

حضور غیر تم عشاق کی تحقیر کرتے ہو

ارشد علی خان قلق

;

حضور غیر تم عشاق کی تحقیر کرتے ہو
محبت کرنے والوں کی یہی توقیر کرتے ہو

عبث تم خواہش‌ وصل بت بے پیر کرتے ہو
جو قسمت میں نہیں ہے اس کی کیا تدبیر کرتے ہو

زمین و آسماں کا فرق ہے خورشید و ذرہ میں
مقابل چاند سے کیا یار کی تصویر کرتے ہو

دم آخر لڑے وحشی کے زنداں میں یہ غل ہوگا
ستم کرتے ہو ویراں خانۂ زنجیر کرتے ہو

جو مجھ سودا زدہ نے کی کبھی تشریح زلفوں کی
تو بولے ہنس کے کیا الجھی ہوئی تقریر کرتے ہو

مسافر کے لئے ہے فکر گور اے منعمو لازم
عمارت کیا سرائے دہر میں تعمیر کرتے ہو

سحر تک نیند اڑ جاتی ہے ہم سایے کی تو بے شک
اثر کیا خاک اور اے نالۂ شبگیر کرتے ہو

جو مشق حرف لا کرتا ہوں کہتے ہیں دقیقہ رس
معمائے دہان یار کیا تحریر کرتے ہو

عبث دل توڑ کر یاد بتاں میں محو ہو اتنا
خدا کے گھر کو ڈھا کر بت کدہ تعمیر کرتے ہو

ہمارے بعد آؤ گے تو کیا اے نامہ بر کہنا
ہم آخر ہوتے ہیں آنے میں تم تاخیر کرتے ہو

خط و رخ کی صفت میں رٹ لگی رہتی ہے جو تم کو
قلقؔ کیا حفظ قرآں کا مع تفسیر کرتے ہو