EN हिंदी
حور ہو یا کوئی پری ہو تم | شیح شیری
hur ho ya koi pari ho tum

غزل

حور ہو یا کوئی پری ہو تم

شجاعت اقبال

;

حور ہو یا کوئی پری ہو تم
کیسے دل میں اتر گئی ہو تم

تیری آنکھوں میں نیلے دریا ہیں
میرے خوابوں کی جل پری ہو تم

زندگی بھی تو عارضی ٹھہری
کیسے کہہ دوں کہ زندگی ہو تم

تم مری نظم ہو تخیل ہو
میری اردو ہو شاعری ہو تم

دیکھ جگنو بھی تم سے جلتے ہیں
چاند نگری کی چاندنی ہو تم

آئنہ خانہ بن گئی آنکھیں
سامنے ہو بہ ہو کھڑی ہو تم

مجھ سے گویائی چھن گئی میری
جب سے پتھر کی بن گئی ہو تم

آخری بار دیکھ لوں تم کو
کیا پلٹ کر بھی دیکھتی ہو تم

آج دل نے تمہیں بہت ڈھونڈا
ایسے لگتا ہے جا چکی ہو تم