ہوں شامل سب میں اور سب سے جدا ہوں
میں خود یہ سوچتا رہتا ہوں کیا ہوں
حصار ذات سے باہر نکل کر
میں ہر صورت میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں
وہ مجھ سے دور بھی ہے پاس بھی ہے
کبھی میں اپنے دل میں دیکھتا ہوں
میں خود کچھ بھی نہیں ہوں یہ بھی سچ ہے
نوا وہ ہے مگر میں ہم نوا ہوں
کبھی میں اپنے عالم میں نہیں ہوں
کبھی راضی کبھی خود سے خفا ہوں
مجھے کب تک اس عالم میں رکھے گا
تری کیا مصلحت ہے سوچتا ہوں
تماشا گاہ ہستی کی نہ پوچھو
میں خود ہی ابتدا خود انتہا ہوں
مجھے جلوت میں کیا کیا دیکھنا ہے
ابھی خلوت میں مصروف دعا ہوں
رضاؔ اک بندۂ عاجز ہوں میں تو
وہی لکھتا ہوں جو کچھ دیکھتا ہوں

غزل
ہوں شامل سب میں اور سب سے جدا ہوں
رضا امروہوی