ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہوا
ورنہ وہ ہے باندھ کر رخت سفر رکھا ہوا
مجھ کو میرے سب شہیدوں کے تقدس کی قسم
ایک طعنہ ہے مجھے شانوں پہ سر رکھا ہوا
میرے بوجھل پاؤں گھنگھرو باندھ کر ہلکے ہوئے
سوچنے سے کیا نکلتا دل میں ڈر رکھا ہوا
اک نئی منزل کی دھن میں دفعتاً سرکا لیا
اس نے اپنا پاؤں میرے پاؤں پر رکھا ہوا
تو ہی دنیا کو سمجھ پروردۂ دنیا ہے تو
میں یونہی اچھا ہوں سب سے بے خبر رکھا ہوا
غزل
ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہوا
احمد حسین مجاہد