حصول رزق کے ارماں نکالتے گزری
حیات ریت سے سکے ہی ڈھالتے گزری
مسافرت کی صعوبت میں عمر بیت گئی
بچی تو پاؤں سے کانٹے نکالتے گزری
ہوا نے جشن منائے وہ انتظار کی رات
چراغ حجرۂ فرقت سنبھالتے گزری
وہ تیز لہر تو ہاتھوں سے لے گئی کشتی
پھر اس کے بعد سمندر کھنگالتے گزری
رسائی جس کی نہ تھی بے کراں سمندر تک
وہ موج نہر بھی چھینٹے اچھالتے گزری
یہی نہیں کہ ستارے تھے دسترس سے بعید
ذرا ذرا سے تمنا بھی ٹالتے گزری
تمام عمر تصورؔ ردائے بخت سیاہ
مشقتوں کے لہو سے اجالتے گزری
غزل
حصول رزق کے ارماں نکالتے گزری
یعقوب تصور