حصول مقصد میں آخرش یوں رہے گی قسمت دخیل کب تک
تم اپنی ناکامیوں پہ دو گے مقدروں کی دلیل کب تک
سمندروں کی ریاستوں کو لٹا کے آوارہ پھرنے والو
اب ایک قطرہ کی منتوں سے کرو گے خود کو ذلیل کب تک
تو مرد مومن ہے اپنی منزل کو آسمانوں پہ دیکھ ناداں
کہ راہ ظلمت میں ساتھ دے گا کوئی چراغ علیل کب تک
جلال رفتہ کو بھول بھی جا ضرورت حال پر نظر کر
رکھے گا چولھے کی آگ ٹھنڈی پئے وقار قبیل کب تک
درازئ قد سے آدمی کو نصیب ہوتی نہیں بلندی
تجھے فریب فراز دے گی یہ کجکلاہ طویل کب تک
غزل
حصول مقصد میں آخرش یوں رہے گی قسمت دخیل کب تک
احتشام الحق صدیقی