حسن اس شوخ کا اہا ہاہا
جن نے دیکھا کہا اہا ہاہا
زلف ڈالے ہے گردن دل میں
دام کیا کیا بڑھا اہا ہاہا
تیغ ابرو بھی کرتی ہے دل پر
وار کیا کیا نیا اہا ہاہا
آن پر آن وہ اجی او ہو
اور ادا پر ادا اہا ہاہا
ناز سے جو نہ ہو وہ کرتی ہے
چپکے چپکے حیا اہا ہاہا
طائر دل پہ اس کا باز نگاہ
جس گھڑی آ پڑا اہا ہاہا
اس کی پھرتی اور اس کی لپ چھپ کا
کیا تماشا ہوا اہا ہاہا
بزم خوباں میں جب گیا وہ شوخ
اپنی سج دھج بنا اہا ہاہا
کی او ہو ہو کسی نے دیکھ نظیرؔ
کوئی کہنے لگا اہا ہاہا
غزل
حسن اس شوخ کا اہا ہاہا
نظیر اکبرآبادی