حسن پر بوجھ ہوئے اس کے ہی وعدے اب تو
ترک کر اے غم دل اپنے ارادے اب تو
اس قدر عام ہوئی شہر میں خوں پیرہنی
نظر آتے نہیں بے داغ لبادے اب تو
تو ٹھہرتا نہیں میرے لیے پھر ضد کیسی
قید اس ہم سفری کی بھی اٹھا دے اب تو
پیڑ نے سائے کے حرفوں میں لکھا تھا جس کو
ڈوبتے چاند وہ تحریر مٹا دے اب تو
سوختہ لمحے تجھے بار سفر ہی ہوں گے
راکھ بھی اپنے تعلق کی اڑا دے اب تو
اشتہار اپنا لیے پھرتا ہوں قریہ قریہ
کیا ہے قیمت مری یہ کوئی بتا دے اب تو
خود کو پہنچائی ہے کیا کیا نہ اذیت میں نے
کوئی شاہینؔ مجھے اس کی سزا دے اب تو
غزل
حسن پر بوجھ ہوئے اس کے ہی وعدے اب تو
ولی عالم شاہین