حسن پابند حنا ہو جیسے
یہ وفاؤں کا صلہ ہو جیسے
یوں وہ کرتے ہیں کنارا مجھ سے
اس میں میرا ہی بھلا ہو جیسے
طعنہ دیتے ہیں مجھے جینے کا
زندگی میری خطا ہو جیسے
اس طرح آنکھ سے ٹپکا ہے لہو
شاخ سے پھول گرا ہو جیسے
سر کہسار وہ بادل گرجا
دل دھڑکنے کی صدا ہو جیسے
حال دل پوچھتے ہو یوں مجھ سے
تم مرے دل سے جدا ہو جیسے
یاد یوں آئی تری رک رک کر
کوئی زنجیر بہ پا ہو جیسے
اب جفا کو بھی ترستے ہیں رضاؔ
یہی تاثیر دعا ہو جیسے
غزل
حسن پابند حنا ہو جیسے
رضا ہمدانی