حسن و الفت ساتھ ہیں آغاز سے انجام تک
میرا افسانہ سنا جائے گا تیرے نام تک
زندگی کی تلخیاں ہیں گردش ایام تک
لالہ و گل کا تبسم ہے چمن میں شام تک
کیا خبر پردہ بہ پردہ کتنے جلوے ہیں نہاں
چشم ظاہر بیں نے دیکھا ان کو حسن عام تک
جن کے پیمانے بھرے ہیں ان پہ کیا تیرا کرم
لطف تو ساقی ہے جب بھر جائیں خالی جام تک
جس نے جینے کا ارادہ کر لیا وہ جی گیا
اس سے کترا کر چلی ہے گردش ایام تک
بن گئے شیخ و برہمن مالک دیر و حرم
فیض مے خانہ مگر جاری ہے خاص و عام تک
سانس لینا تو نہیں کوئی دلیل زندگی
زندگی کیسی نہیں اب زندگی کا نام تک
حسن کی پہلی نظر ہی دل کی دنیا کھو گئی
لٹ گئے آغاز میں دیکھا نہیں انجام تک
اب تو ساقی عظمت مے خانہ تیرے ہاتھ ہے
گردش ایام آ پہنچی ہے دور جام تک
مے کدہ کا حال کچھ ہو چشم ساقی کچھ کہے
ہے صراحی تک نظر عارفؔ کسی کی جام تک

غزل
حسن و الفت ساتھ ہیں آغاز سے انجام تک
محمد عثمان عارف