حسن مائل بہ ستم ہو تو غزل ہوتی ہے
عشق بادیدۂ نم ہو تو غزل ہوتی ہے
پھول برسائیں کہ وہ ہنس کے گرائیں بجلی
کوئی بھی خاص کرم ہو تو غزل ہوتی ہے
کبھی دنیا ہو کبھی تم کبھی تقدیر خلاف
روز اک تازہ ستم ہو تو غزل ہوتی ہے
دامن ضبط چھٹے چور ہو یا شیشۂ دل
حادثہ کوئی اہم ہو تو غزل ہوتی ہے
شکن گیسوئے دوراں ہی پہ موقوف نہیں
ان کی زلفوں میں بھی خم ہو تو غزل ہوتی ہے
چارہ گر لاکھ کریں کوشش درماں لیکن
درد اس پر بھی نہ کم ہو تو غزل ہوتی ہے
راز تخلیق غزل ہم کو ہے معلوم نسیمؔ
جام ہو مے ہو صنم ہو تو غزل ہوتی ہے
غزل
حسن مائل بہ ستم ہو تو غزل ہوتی ہے
نسیم شاہجہانپوری