حسن کو وسعتیں جو دیں عشق کو حوصلہ دیا
جو نہ ملے نہ مٹ سکے وہ مجھے مدعا دیا
ہاتھ میں لے کے جام مے آج وہ مسکرا دیا
عقل کو سرد کر دیا روح کو جگمگا دیا
دل پہ لیا ہے داغ عشق کھو کے بہار زندگی
اک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹا دیا
لذت درد خستگی دولت دامن تہی
توڑ کے سارے حوصلے اب مجھے یہ صلا دیا
کچھ تو کہو یہ کیا ہوا تم بھی تھے ساتھ ساتھ کیا
غم میں یہ کیوں سرور تھا درد نے کیوں مزا دیا
اب نہ یہ میری ذات ہے اب نہ یہ کائنات ہے
میں نے نوائے عشق کو ساز سے یوں ملا دیا
عکس جمال یار کا آئنۂ خودی میں ہے
یہ غم ہجر کیا دیا مجھ سے مجھے چھپا دیا
حشر میں آفتاب حشر اور وہ شور الاماں
اصغرؔ بت پرست نے زلف کا واسطا دیا
غزل
حسن کو وسعتیں جو دیں عشق کو حوصلہ دیا
اصغر گونڈوی