حسن کو اس کے خط کا داغ لگا
پر ہمیں تو بہار و باغ لگا
گھر سے جوں ماہ بے حجاب نکل
اب تو اے شمع رو چراغ لگا
بادشاہوں کی بزم عشرت سے
اپنا مت گوشۂ فراغ لگا
آتشیں اشک ایک دم جو تھما
خانۂ دیدہ بے چراغ لگا
لے خبر اب تو ساقیٔ سر دست
خشک ہونے مرا دماغ لگا
کس کو یہ خون دل ملی دولت
اس کے ہونٹوں سے جا ایاغ لگا
دل گم گشتہ کا مرے حسرتؔ
لگ سکے تو کہیں سراغ لگا
غزل
حسن کو اس کے خط کا داغ لگا
حسرتؔ عظیم آبادی