حسن کو شکلیں دکھانی آ گئیں
شوخیاں لے کر جوانی آ گئیں
سر میں سودا دل میں درد آنکھوں میں اشک
بستیاں ہم کو بسانی آ گئیں
جو بگڑ جاتا تھا باتوں پر کبھی
اب اسے باتیں بنانی آ گئیں
دل میں لاکھوں داغ روشن ہو گئے
عشق کو شمعیں جلانی آ گئیں
برق و باراں کے جلو میں بدلیاں
ساتھ لے کر آگ پانی آ گئیں
اے دل راحت طلب ہشیار باش
ساعتیں اب امتحانی آ گئیں
دل لگا کر پھنس گئے زحمت میں ہم
تھیں بلائیں جتنی آنی آ گئیں
مسکرا دینا قیامت ہو گیا
بجلیاں تم کو گرانی آ گئیں
ڈر رہے تھے جن سے ارباب جہاں
وہ بلائیں آسمانی آ گئیں
نوحؔ وہ کہتے ہیں پھر طوفان اٹھے
قوتیں اب آزمانی آ گئیں

غزل
حسن کو شکلیں دکھانی آ گئیں
نوح ناروی