EN हिंदी
حسن کو شکلیں دکھانی آ گئیں | شیح شیری
husn ko shaklen dikhani aa gain

غزل

حسن کو شکلیں دکھانی آ گئیں

نوح ناروی

;

حسن کو شکلیں دکھانی آ گئیں
شوخیاں لے کر جوانی آ گئیں

سر میں سودا دل میں درد آنکھوں میں اشک
بستیاں ہم کو بسانی آ گئیں

جو بگڑ جاتا تھا باتوں پر کبھی
اب اسے باتیں بنانی آ گئیں

دل میں لاکھوں داغ روشن ہو گئے
عشق کو شمعیں جلانی آ گئیں

برق و باراں کے جلو میں بدلیاں
ساتھ لے کر آگ پانی آ گئیں

اے دل راحت طلب ہشیار باش
ساعتیں اب امتحانی آ گئیں

دل لگا کر پھنس گئے زحمت میں ہم
تھیں بلائیں جتنی آنی آ گئیں

مسکرا دینا قیامت ہو گیا
بجلیاں تم کو گرانی آ گئیں

ڈر رہے تھے جن سے ارباب جہاں
وہ بلائیں آسمانی آ گئیں

نوحؔ وہ کہتے ہیں پھر طوفان اٹھے
قوتیں اب آزمانی آ گئیں