حسن کو مطلقاً نہیں ہے ثبات
عشق آیا ہے پی کر آب حیات
ہجر میں یوں گزرتے ہیں لمحات
اک نفس موت ہے تو ایک حیات
عشق ہے مشعل نظر ورنہ
زندگی کیا ہے اک اندھیری رات
عقل کی استقامتیں تسلیم
لغزش بے خودی بھی ہے اک بات
موت ہے زندگی سے بے زاری
زندگی کیا ہے آرزوئے حیات
خلد پرور ہے ہر نگاہ سحر
یہ خط جام ہے کہ راہ نجات
غزل
حسن کو مطلقاً نہیں ہے ثبات
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر