حسن کو جو منظور ہوا
عشق کا وہ مقدور ہوا
پردوں میں عریاں تھا حسن
جلووں میں مستور ہوا
جتنے ہم نزدیک گئے
اتنا ہی وہ دور ہوا
کتنی آسیں ٹوٹ گئیں
کتنا دل رنجور ہوا
مختاری کی شان ملی
کیا انساں مجبور ہوا
پل بھر کشتی ٹھہری تھی
برسوں ساحل دور ہوا
حق کی باتیں سمجھے کون
جو سمجھا منصور ہوا
آگ نہ تھی تو پتھر تھا
آگ جلی تو طور ہوا
مل کر آج تبسمؔ سے
کتنا دل مسرور ہوا
غزل
حسن کو جو منظور ہوا
صوفی تبسم