حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
دھیان کی شمع جلا کر دیکھو
کیا خبر کوئی دفینہ مل جائے
کوئی دیوار گرا کر دیکھو
فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں
سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو
کیوں چمن چھوڑ دیا خوشبو نے
پھول کے پاس تو جا کر دیکھو
نہر کیوں سو گئی چلتے چلتے
کوئی پتھر ہی گرا کر دیکھو
دل میں بیتاب ہیں کیا کیا منظر
کبھی اس شہر میں آ کر دیکھو
ان اندھیروں میں کرن ہے کوئی
شب زود آنکھ اٹھا کر دیکھو
غزل
حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
ناصر کاظمی