حسن کی شمع کا ہوں پروانہ
خلق کہتی ہے مجھ کو دیوانہ
نقش پا پر گئے کیے سجدے
کس قدر ہوش میں تھا دیوانہ
ہوش جاتے رہیں گے جانے دو
تم سنو گے ہمارا افسانہ
تیری محفل سے اٹھ کے جاتے ہیں
اب بسائیں گے کوئی ویرانہ
جس نے رکھا قدم محبت میں
عقل سے ہو گیا وہ بیگانہ
تیری آنکھوں کے کیف سے ساقی
رقص میں ہے تمام مے خانہ
بادۂ غم نے بھر دیا جوہرؔ
زندگانی کا میری پیمانہ

غزل
حسن کی شمع کا ہوں پروانہ
جوہر زاہری