حسن کی جنس خریدار لیے پھرتی ہے
ساتھ بازار کا بازار لیے پھرتی ہے
در بدر حسرت دل دار لیے پھرتی ہے
سر ہر کوچہ و بازار لیے پھرتی ہے
عدم آباد میں آنے کا سبب ہے ظاہر
جستجوئے کمر یار لیے پھرتی ہے
دل سوزاں سے نہیں کوئی نشان ظلمت
مشعل آہ شب تار لیے پھرتی ہے
آتے ہی فصل خزاں بلبل شیدا بہکی
ہر طرف گل کی جگہ خار لیے پھرتی ہے
دیر و مسجد میں تمنائے زیارت کس کی
تم کو اے کافر و دیں دار لیے پھرتی ہے
دشت میں قیس کو کیا آئے نظر جب لیلیٰ
ساتھ میں گرد کی دیوار لیے پھرتی ہے
دور ساغر میں نہیں کف سر بادہ ساقی
دخت رز شیخ کی دستار لیے پھرتی ہے
خون فرہاد سے بے چین ہے روح شیریں
بے ستوں سے بھی گراں بار لیے پھرتی ہے
گل سے کیوں کہہ نہیں دیتی ہے پیام بلبل
اپنے سر باد صبا بار لیے پھرتی ہے
مانتا ہی نہیں لیلیٰ کہ کرے کیا لیلیٰ
ساتھ میں قیس کو ناچار لیے پھرتی ہے
صدمہ پہنچا کسی گل کو کہ چمن میں بلبل
خوں میں ڈوبی ہوئی منقار لیے پھرتی ہے
کشتۂ ناز کی تربت نہ ملے گی بلبل
پھول منقار میں بے کار لیے پھرتی ہے
طائر دل کو ہوائے خم زلف صیاد
صورت مرغ گرفتار لیے پھرتی ہے
جنبش پا سے ہے گلیوں میں قیامت برپا
ساتھ محشر تری رفتار لیے پھرتی ہے
کوہ کن خود تو سبک دوش ہوا، پر شیریں
سر پہ الزام کا کہسار لیے پھرتی ہے
دشت غربت میں نہیں پھرتا ہوں خود آوارہ
گردش چرخ ستم گار لیے پھرتی ہے
ساتھ دنیا کا نہیں طالب دنیا دیتے
اپنے کتوں کو یہ مردار لیے پھرتی ہے
حسرت دید اثرؔ حضرت آتشؔ کی طرح
پیش روزن پس دیوار لیے پھرتی ہے
غزل
حسن کی جنس خریدار لیے پھرتی ہے
امداد امام اثرؔ