حسن کی ہر ادا پہ مرتا ہوں
زندگی تیری قدر کرتا ہوں
کھو نہ جائیں مزے حضوری کے
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
عشق کی ہے یہ کون سی منزل
گاہ جیتا ہوں گاہ مرتا ہوں
کون عارف ہے عظمت غم کا
مٹ کے میں اور بھی نکھرتا ہوں
ہو کے پامال راہ الفت میں
کیا بگڑتا ہوں کیا سنورتا ہوں
بحر غم میں یہ فکر کس کو ہے
غرق ہوتا ہوں یا ابھرتا ہوں
غیر کو راز دار کیا کرتا
میں بشیرؔ آپ سے بھی ڈرتا ہوں

غزل
حسن کی ہر ادا پہ مرتا ہوں
سید بشیر حسین بشیر