EN हिंदी
حسن کی ہر ادا پہ مرتا ہوں | شیح شیری
husn ki har ada pe marta hun

غزل

حسن کی ہر ادا پہ مرتا ہوں

سید بشیر حسین بشیر

;

حسن کی ہر ادا پہ مرتا ہوں
زندگی تیری قدر کرتا ہوں

کھو نہ جائیں مزے حضوری کے
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں

عشق کی ہے یہ کون سی منزل
گاہ جیتا ہوں گاہ مرتا ہوں

کون عارف ہے عظمت غم کا
مٹ کے میں اور بھی نکھرتا ہوں

ہو کے پامال راہ الفت میں
کیا بگڑتا ہوں کیا سنورتا ہوں

بحر غم میں یہ فکر کس کو ہے
غرق ہوتا ہوں یا ابھرتا ہوں

غیر کو راز دار کیا کرتا
میں بشیرؔ آپ سے بھی ڈرتا ہوں