حسن کے راز نہاں شرح بیاں تک پہنچے
آنکھ سے دل میں گئے دل سے زباں تک پہنچے
دل نے آنکھوں سے کہی آنکھوں نے دل سی کہہ دی
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
عشق پہلے ہی قدم پر ہے یقیں سے واصل
انتہا عقل کی یہ ہے کہ گماں تک پہنچے
کعبہ و دیر میں تو لوگ ہیں آتے جاتے
وہ نہ لوٹے جو در پیر مغاں تک پہنچے
آنکھ سے آنکھ کہے دل سے ہوں دل کی باتیں
وائے وہ عرض تمنا جو زباں تک پہنچے

غزل
حسن کے راز نہاں شرح بیاں تک پہنچے
محمد دین تاثیر