حسن جو رنگ خزاں میں ہے وہ پہچان گیا
فصل گل جا مرے دل سے ترا ارمان گیا
تو خداوند محبت ہے میں پہچان گیا
دل سا ضدی تری نظروں کا کہا مان گیا
آئنہ خانہ سے ہوتا ہوا حیران گیا
خود فراموش ہوا جو تمہیں پہچان گیا
اب تو مے خانۂ الفت میں چلا آیا ہوں
اس سے کیا بحث رہا یا میرا ایمان گیا
اپنے دل سے بھی چھپانے کی تھی کوشش کیا کیا
وہ مرا حال محبت جسے تو جان گیا
ہے یہی حکم تو تعمیل کریں گے صاحب
نہ کریں گے تمہیں ہم یاد جو دل مان گیا
چھن گیا کیف بہکتے ہوئے کم ظرفوں میں
مے کدے سے بھی گیا میں تو پریشان گیا
نہ ملا چین کسی حال میں مجبوروں کو
مسکرائے تو ہر اک شخص برا مان گیا
اپنی رو میں جو بہائے لئے جاتا تھا ہمیں
وہ زمانہ وہ تمناؤں کا طوفان گیا
جھک کے چومی جو زمیں اس کی گلی کی ہم نے
کفر چیخا کہ سنبھالو مرا ایمان گیا
تیلیاں خون سے تر دیکھیں قفس کی جو صباؔ
اپنی سوکھی ہوئی آنکھوں پہ مرا دھیان گیا
غزل
حسن جو رنگ خزاں میں ہے وہ پہچان گیا
صبا اکبرآبادی