حسن اس شمع رو کا ہے گل رنگ
کیوں نہ بلبل جلے مثال پتنگ
خط شب رنگ اس پری رو کا
دیکھ آیا ہے آرسی پر زنگ
اس کے نازک بدن میں ہوئے نہاں
پہنے گر وو صنم قبائے تنگ
دیکھ مجنوں نے بس کہا مجھ کوں
اس قدر مارتے ہیں طفلاں سنگ
ساقیا جام مے سوں کر سرشار
مجھ کوں درکار نیں ہے نام و ننگ
غیر گردش کے پہنچتا نہیں رزق
شاہد اس پر ہے آسیا کا سنگ
یک قدم راہ دوست ہے داؤدؔ
لیکن افسوس پائے بخت ہے لنگ
غزل
حسن اس شمع رو کا ہے گل رنگ
داؤد اورنگ آبادی