حسن ہر رنگ میں مخصوص کشش رکھتا ہے
وہ تبسم کی ادا ہو کہ ستم کوشی ہو
زندگی کیف مسلسل میں گزر جاتی ہے
چشم مخمور کی مستی ہو کہ مے نوشی ہو
تیرے آنے کی مسرت سے سحر ہو روشن
اور راتوں کی ترے غم میں سیہ پوشی ہو
جاذبیت تو بہ ہر حال ہوا کرتی ہے
حسن کی بو قلمونی ہو کہ خوش پوشی ہو
کوئی عالم ہو نجات غم دوراں کے لئے
موت ہو نیند ہو بے ہوشی ہو
شکر انوارؔ جفاؤں پہ نہ کیوں کر کیجیے
کیونکہ شکوہ ہو تو احسان فراموشی ہو
غزل
حسن ہر رنگ میں مخصوص کشش رکھتا ہے (ردیف .. و)
انوار الحسن انوار