حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے
پر یہ کمبخت محبت تو زمانے تک ہے
وہ ملے گا تو شناسائی دلوں تک ہوگی
اجنبیت تو فقط سامنے آنے تک ہے
دشت میں پاؤں دھرا تھا کبھی وحشت کے بغیر
اب وہی ریت مرے آئینہ خانے تک ہے
شاعری پیروں فقیروں کا وظیفہ تھا کبھی
اب تو یہ کام فقط نام کمانے تک ہے
چاند گردوں کو میسر ہے سحر ہونے تک
رقص درویش ترے بام پہ آنے تک ہے
میں محمد کے غلاموں کا غلام ابن غلام
ایسے نسبت اسی پاکیزہ گھرانے تک ہے
غزل
حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے
ممتاز گورمانی