EN हिंदी
حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے | شیح شیری
husn fani hai jawani ke fasane tak hai

غزل

حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے

ممتاز گورمانی

;

حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے
پر یہ کمبخت محبت تو زمانے تک ہے

وہ ملے گا تو شناسائی دلوں تک ہوگی
اجنبیت تو فقط سامنے آنے تک ہے

دشت میں پاؤں دھرا تھا کبھی وحشت کے بغیر
اب وہی ریت مرے آئینہ خانے تک ہے

شاعری پیروں فقیروں کا وظیفہ تھا کبھی
اب تو یہ کام فقط نام کمانے تک ہے

چاند گردوں کو میسر ہے سحر ہونے تک
رقص درویش ترے بام پہ آنے تک ہے

میں محمد کے غلاموں کا غلام ابن غلام
ایسے نسبت اسی پاکیزہ گھرانے تک ہے