حسن بتاں کا عشق میری جان ہو گیا
یہ کفر اب تو حاصل ایمان ہو گیا
اے ضبط دل یہ کیسی قیامت گزر گئی
دیوانگی میں چاک گریبان ہو گیا
وہ بن سنور کے پھر مری محفل میں آ گئے
بیٹھے بٹھائے حشر کا سامان ہو گیا
کر کے سنگھار آئے وہ ایسی ادا کے ساتھ
آئینہ ان کو دیکھ کر حیران ہو گیا
دیکھا جو اس صنم کو تو محسوس یہ ہوا
جلوہ خدا کا صورت انسان ہو گیا
سب میرا عشق دیکھ کے لیتے ہیں تیرا نام
میں بھی ترے جمال کی پہچان ہو گیا
پوجا کریں گے اس کی فناؔ ہم تمام عمر
وہ بت ہمارے واسطے بھگوان ہو گیا

غزل
حسن بتاں کا عشق میری جان ہو گیا
فنا بلند شہری