حسن بازار تو ہے گرمئ بازار نہیں
بیچنے والے ہیں سب کوئی خریدار نہیں
آؤ بتلائیں کہ وعدوں کی حقیقت کیا ہے
پیڑ اونچے ہیں سبھی کوئی ثمر دار نہیں
دل کی افتاد مزاجی سے پریشاں ہوں میں
تھی طلب جس کی اب اس کا ہی طلب گار نہیں
اب جسے دیکھو وہی گھوم رہا ہے باندھے
دستیاب اب کسی دوکان پہ دستار نہیں
اے زلیخا تو نے جو دام لگایا اب کے
اس پہ یوسف تو کوئی بکنے کو تیار نہیں
آسماں چھت ہے زمیں فرش کشادہ ہے مکاں
میرا گھر وہ ہے کہ جس کے در و دیوار نہیں
ہے سخن فہمی کا ہر شخص کو دعویٰ لیکن
کون ایسا ہے جو غالبؔ کا طرف دار نہیں
اے کمالؔ ایسے میں کیا لطف سفر پاؤ گے
راہ میں دھوپ نہیں سنگ نہیں خار نہیں
غزل
حسن بازار تو ہے گرمئ بازار نہیں
احمد کمال حشمی