حسن ازل کا جلوہ ہماری نظر میں ہے
جو طور پر ہوا تھا دل دیدہ ور میں ہے
دیر و حرم میں کس لیے آوارہ گردیاں
جس کی تجھے تلاش ہے وہ دل کے گھر میں ہے
جو دیکھنے کی آنکھ ہے تجھ کو نہیں ملی
وہ نور قد میں ورنہ شجر میں حجر میں ہے
خاموشیوں میں محفل انجم کی اس کو دیکھ
ہنگامہ مست کیوں تو نمود سحر میں ہے
دیکھا ہے اور پھر نہیں آیا نظر تجھے
وہ حسن وہ جلال جو شمس و قمر میں ہے
اس کو نتیجے علت غائی کی اس کو دھن
فرق اس قدر ہی بے خبر و با خبر میں ہے
ڈھونڈا ہے جس نے اس نے ہی پایا سنا نہیں
لکھا ہوا یہ حکم قضا و قدر میں ہے
ہاں ہاں خدا خدا ہی ہے اور ہے بشر بشر
اس عقدے کا جو حل ہے وہ قلب بشر میں ہے
وہ بھی تو ہیں نظارۂ کل جز میں ہے جنہیں
پوشیدہ راز دید تو حسن نظر میں ہے
ہے عشق جزو لا یتجزیٰ یقین جان
یہ قیمت مجاز و حقیقت خطر میں ہے
کیا شوق دید تجھ پہ تو غالب ہے لطف دید
جو بات تیرے دل میں ہے اپنی نظر میں ہے
نکلے نہ پھنس کے گیسوئے پر پیچ و خم سے دل
ساحل پہ خاک پہنچے جو کشتی بھنور میں ہے
الفت ہے کس کی کیسی محبت کہاں کا عشق
معدوم تو تو فکر دہان و کمر میں ہے
ناقص تھی ابتدا تو ہے انجام عشق بھی
بے ربطی مبتدا میں جو تھی وہ خبر میں ہے
کیفیؔ مسیح شعر ہیں احباب اور بھی
اک تجھ سے جان تازہ نہیں اس ڈھچر میں ہے
غزل
حسن ازل کا جلوہ ہماری نظر میں ہے
دتا تریہ کیفی