حکومت ہے نہ شوکت ہے نہ عزت ہے نہ دولت ہے
ہمارے پاس اب لے دے کے باقی بس ثقافت ہے
گنے جاتے ہیں جو دہلیز کے بجھتے چراغوں میں
انہیں ایوان کی محراب میں جلنے کی عادت ہے
چلو خیرات نہ ملتی کوئی کھڑکی ہی کھل جاتی
فقیروں کو محلے سے بس اتنی سی شکایت ہے
بھرم دونوں کا قائم ہے ادائے بے نیازی سے
زمانہ پوچھتا کب ہے ہماری کیا ضرورت ہے
کسی منزل پہ ہم کو مستقل رہنے نہیں دیتا
نہ جانے وقت کو ہم بے گھروں سے کیا شکایت ہے
زباں بندی تو پہلے تھی بحکم صاحب عالم
نگاہوں کو بھی اب خاموش رہنے کی ہدایت ہے
غزل
حکومت ہے نہ شوکت ہے نہ عزت ہے نہ دولت ہے
خواجہ ربانی