حکم مرشد پہ ہی جی اٹھنا ہے مر جانا ہے
عشق جس سمت بھی لے جائے ادھر جانا ہے
میری بینائی ترے قرب کی مرہون ہے دوست
ہاتھ چھوڑوا کے بھلا تجھ سے کدھر جانا ہے
اس کی چھاؤں میں بھی تھک کر نہیں بیٹھا جاتا
تو نے جس پیڑ کو پھل دار شجر جانا ہے
ہوئے خدشات کہ پہچان نہیں پایا تجھے
میں سمجھتا تھا کہ تو نے بھی بچھڑ جانا ہے
لڑکھڑاتا ہوں تو وہ رو کے لپٹ جاتا ہے
میں نے گرنا ہے تو اس شخص نے مر جانا ہے
خشک مشکیزہ لیے خالی پلٹنا ہے اسے
اور دریاؤں کا شیرازہ بکھر جانا ہے

غزل
حکم مرشد پہ ہی جی اٹھنا ہے مر جانا ہے
راکب مختار