ہجوم بے خودی میں غم کی تصویریں نظر آئیں
مجھے شیشے میں جب رندوں کی تقدیریں نظر آئیں
مرے ذہن رسا نے جذب کر لیں حوصلہ پا کر
رخ گل پر مشیت کی جو تحریریں نظر آئیں
در زنداں سے چھٹ کر بھی وہی ہے سلسلہ یعنی
کہ اک زنجیر ٹوٹی لاکھ زنجیریں نظر آئیں
چمن والے جنہیں جان چمن کہتے تھے وہ کلیاں
مجھے تو داغہائے دل کی تصویریں نظر آئیں
نہ جانے کتنے پردے درمیاں حائل رہے لیکن
شب وعدہ تصور میں وہ تنویریں نظر آئیں
وہیں پر ہمت انسانیت نے سانس توڑا ہے
جہاں تقدیر سے مرعوب تدبیریں نظر آئیں
کوئی افسانہ سمجھے یا بیان واقعہ سمجھے
مجھے اک خواب نادیدہ کی تعبیریں نظر آئیں
وہ انساں خود شناسائے رموز دل نہیں میکشؔ
کہ جس کو ظرف رندانہ میں تقصیریں نظر آئیں

غزل
ہجوم بے خودی میں غم کی تصویریں نظر آئیں
مسعود میکش مراد آبادی