EN हिंदी
ہوئی جو شام راستے گھروں کی سمت چل پڑے | شیح شیری
hui jo sham raste gharon ki samt chal paDe

غزل

ہوئی جو شام راستے گھروں کی سمت چل پڑے

مسلم سلیم

;

ہوئی جو شام راستے گھروں کی سمت چل پڑے
ہمیں مگر یہ کیا ہوا یہ ہم کدھر نکل پڑے

کسی کی آرزؤں کی وہ سرد لاش ہی سہی
کسی طرح تو جسم کی حرارتوں کو کل پڑے

اسی کی غفلتوں پہ میری عظمتیں ہیں منحصر
خدانخواستہ کہ اس کی نیند میں خلل پڑے

سفر طویل تھا مگر گھٹا اٹھی امید کی
کڑی تھی دھوپ دیکھیں کس پہ سایۂ اجل پڑے