ہوئی جو شام راستے گھروں کی سمت چل پڑے
ہمیں مگر یہ کیا ہوا یہ ہم کدھر نکل پڑے
کسی کی آرزؤں کی وہ سرد لاش ہی سہی
کسی طرح تو جسم کی حرارتوں کو کل پڑے
اسی کی غفلتوں پہ میری عظمتیں ہیں منحصر
خدانخواستہ کہ اس کی نیند میں خلل پڑے
سفر طویل تھا مگر گھٹا اٹھی امید کی
کڑی تھی دھوپ دیکھیں کس پہ سایۂ اجل پڑے
غزل
ہوئی جو شام راستے گھروں کی سمت چل پڑے
مسلم سلیم