ہوئی جو رات پہلو میں خوشی سے مر گئے ہم تو
اگر تیرے ہی آنگن میں سحر ہوتی تو کیا ہوتا
گزر تو یوں بھی جائے گی کڑکتی دھوپ میں تنہا
ترے دامن کے سائے میں بسر ہوتی تو کیا ہوتا
ہزاروں راستے وا تھے مگر تجھ تک جو پہنچاتی
کہیں وہ ایک چھوٹی سی ڈگر ہوتی تو کیا ہوتا
تری اس سرد مہری میں کسک سی بھی نمایاں ہے
خدایا یہ نوازش بھی نہ گر ہوتی تو کیا ہوتا
تری سب داستانوں میں مرے قصہ لکھے ہوتے
دعا وہ ایک میری با اثر ہوتی تو کیا ہوتا
بہت ہی پر سکوں نکلے ترے آغوش سے پھر ہم
کہ یہ آسودگی آٹھوں پہر ہوتی تو کیا ہوتا
غزل
ہوئی جو رات پہلو میں خوشی سے مر گئے ہم تو (ردیف .. ا)
دناکشی سحر