ہوئی ایجاد نئی طرز خوشامد کہ نہیں
کل کا آئین ہے اب تک سر مسند کہ نہیں
آ گئی اے مرے سائے سے بھی بچنے والی
رفتہ رفتہ ترے اقرار کی سرحد کہ نہیں
نہر خوں ہو چکی، فرہاد کی مزدوری کو
اب کے تیشے سے ملی قیمت ساعد کہ نہیں
ناصحا اس لیے میں گوش بر آواز نہ تھا
تری آواز سے چھوٹا ہے ترا قد کہ نہیں
غزل
ہوئی ایجاد نئی طرز خوشامد کہ نہیں
مصطفی زیدی