EN हिंदी
ہوئی ایجاد نئی طرز خوشامد کہ نہیں | شیح شیری
hui ijad nai tarz-e-KHushamad ki nahin

غزل

ہوئی ایجاد نئی طرز خوشامد کہ نہیں

مصطفی زیدی

;

ہوئی ایجاد نئی طرز خوشامد کہ نہیں
کل کا آئین ہے اب تک سر مسند کہ نہیں

آ گئی اے مرے سائے سے بھی بچنے والی
رفتہ رفتہ ترے اقرار کی سرحد کہ نہیں

نہر خوں ہو چکی، فرہاد کی مزدوری کو
اب کے تیشے سے ملی قیمت ساعد کہ نہیں

ناصحا اس لیے میں گوش بر آواز نہ تھا
تری آواز سے چھوٹا ہے ترا قد کہ نہیں