EN हिंदी
ہوئی ہے عمر کہ خورشید سے نظر نہ ملی | شیح شیری
hui hai umr ki KHurshid se nazar na mili

غزل

ہوئی ہے عمر کہ خورشید سے نظر نہ ملی

محمد صدیق صائب ٹونکی

;

ہوئی ہے عمر کہ خورشید سے نظر نہ ملی
ہمارے ہجر کی شب کو کہیں سحر نہ ملی

ملی تو ان سے مگر فرصت نظر نہ ملی
پھر اس کے بعد خود اپنی ہمیں خبر نہ ملی

ترے کرم سے زمانہ میں مجھ کو کیا نہ ملا
نہیں ملی تو بس اک تیری رہ گزر نہ ملی

کھلا یہ راز کہ ناپائیدار ہے دنیا
یہاں کسی سے کوئی بات معتبر نہ ملی

اسیر حلقۂ دام خیال ہے اب تک
وہ بد نصیب جسے تاب بال و پر نہ ملی

خدا کی ذات سے کچھ منحرف رہے وہ لوگ
کہ جن کو چشم ملی چشم حق نگر نہ ملی

کہاں کہاں ترے جلوے نہ آشکار ہوئے
کہاں کہاں ترے جلووں سے یہ نظر نہ ملی

ہر اک رات کی ہوتی تو ہے سحر لیکن
ہماری رات کو عرصہ ہوا سحر نہ ملی

خدا کی شان ہے صائبؔ سب ایک ہیں لیکن
کسی بشر سے کہیں صورت بشر نہ ملی