ہوئی غزل ہی نہ کچھ بات بن سکی ہم سے
یہ سرگزشت جنوں کب بیاں ہوئی ہم سے
سڑک پہ بیٹھ گئے دیکھتے ہوئے دنیا
اور ایسے ترک ہوئی ایک خودکشی ہم سے
ہم آ گئے تھے گھنے برگدوں کے سائے میں
سو بات کرنے چلی آئی روشنی ہم سے
وہ خواب کیا تھا کہ جو بھولنے لگا دم صبح
وہ رات کیسی تھی جو روٹھنے لگی ہم سے
بجھا کے اپنے الاؤ پڑا ہمیں چھپنا
تو یوں کہانی فراموش ہو گئی ہم سے
ہم آج پھر بڑی تاب و تواں سے جلتے ہیں
پھر آج سہم تو جائے گی تیرگی ہم سے
ہم آج بھی اسی دروازے کی بنے تھے درز
وہ بے نیاز اسی طرح پھر ملی ہم سے
غزل
ہوئی غزل ہی نہ کچھ بات بن سکی ہم سے
احمد عطا