ہوئے ہیں رام پیتم کے نین آہستہ آہستہ
کہ جیوں پھاندے میں آتے ہیں ہرن آہستہ آہستہ
مرا دل مثل پروانے کے تھا مشتاق جلنے کا
لگی اس شمع سوں آخر لگن آہستہ آہستہ
گریباں صبر کا مت چاک کر اے خاطر مسکیں
سنے گا بات وو شیریں بچن آہستہ آہستہ
گل و بلبل کا گلشن میں خلل ہووے تو برجا ہے
چمن میں جب چلے وو گل بدن آہستہ آہستہ
ولیؔ سینے میں میرے پنجۂ عشق ستم گر نے
کیا ہے چاک دل کا پیرہن آہستہ آہستہ
غزل
ہوئے ہیں رام پیتم کے نین آہستہ آہستہ
ولی محمد ولی