ہوئے ایسے بہ دل ترے شیفتہ ہم دل و جاں کو ہمیشہ نثار کیا
رہ عشق سے پھر نہ ہٹائے قدم رہے محو ترے تجھے پیار کیا
ترے شوق میں دل کی تباہی ہوئی ترے ذوق کی اس پہ گواہی ہوئی
کوئی دم بھی نہ لینے دیا مجھے دم مجھے دشمن صبر و قرار کیا
گئی جاں قفس میں برائے چمن چلی لے کے جہاں سے ہوائے چمن
کبھی ابر کرم نے کیا نہ کرم نہ کسی نے بیان بہار کیا
جہاں مہکے مہک گیا سارا جہاں بھلا عطر کو بو یہ نصیب کہاں
بہ خدا ہی خطا کہیں مشک بو ہم تری زلف پہ صدقے نثار کیا
نہ لو عشق کا نام یہ کہتے ہو کیا جو ہو تیغ تلے بھی ہمارا گلا
یہی ہم کہے جائیں خدا کی قسم تمہیں پیار کیا تمہیں پیار کیا
ترے ہاتھ سے میں جو شہید ہوا مری روح کا عشق مرید ہوا
جو حیات رہا تو نہ چھوڑے قدم جو مرا تو طواف مزار کیا
ترے شوق نے ہم کو جو خاک کیا ترے ذوق نے خاک سے پاک کیا
ترے رنگ نے مجھ پہ کیا یہ کرم مجھے تیرے چمن کا غبار کیا
ترے تیر ہدف کی ہوس تھی مجھے بڑی حسرت کنج نفس تھی مجھے
مجھے چوک کیا یہ غضب یہ ستم نہ اسیر کیا نہ شکار کیا
تجھے چاہا تو رنگ یہ مٹ کے جمے ترے باغ میں خاک سے پاک ہوئے
مرے تیرے چمن کی ہوس میں جو ہم تو غبار کو ابر بہار کیا
نہ عدم کی جو مجھ کو سواری ملی کوئی تخت رواں نہ عماری ملی
کئی دوستوں نے مرے ہو کے بہم مجھے دوش پر اپنی سوار کیا
ہمیں اس کی کہیں سے خبر نہ ملی ہوئی عمر تمام مگر نہ ملی
کبھی اس نے بھی حال کیا نہ رقم خط شوق روانہ ہزار کیا
ترے روز ازل سے فریفتہ ہیں ترے حسن و جمال کے شیفتہ ہیں
ترے عشق میں ہو گئے کشتۂ غم وہی کر گئے قول جو یار کیا
ترے بس میں جو آئے تو خاک ہوے جو غبار ہوئے بھی تو خاک ہوئے
رہے بعد فنا بھی نہ چین سے ہم ہمیں گردش لیل و نہار کیا
کبھی سیر چمن کا نہ شوق ہوا کسی بزم کا ہم کو نہ ذوق ہوا
ترے کوچے کو جان کے باغ ارم یہیں بلبل جاں کو نثار کیا
جسے چاہا دل اس پہ نثار کریں کبھی گود میں لیں کبھی پیار کریں
یہ برائی نصیب کی وائے ستم وہ حریف ہوا جسے پیار کیا
مجھے یار نے آ کے جو دیکھا حزیں کہا روئے ہو میں نے کہا کہ نہیں
وہ کہے گئے آنکھوں پہ کیوں ہے ورم شرفؔ ان سے بہانہ ہزار کیا
غزل
ہوئے ایسے بہ دل ترے شیفتہ ہم دل و جاں کو ہمیشہ نثار کیا
آغا حجو شرف