حدود جاں میں حد نارسا سے آیا ہوں
میں اپنے آپ میں لا انتہا سے آیا ہوں
چمک رہی ہے جبیں پر سفر کی دھول ابھی
زمیں کی دھند میں روشن فضا سے آیا ہوں
میں کس کی آنکھ میں تعبیر کی طرح جاگوں
سنہرا خواب ہوں اور قرطبہ سے آیا ہوں
مری ہتھیلی پہ روشن نجات کا لمحہ
میں آج وادیٔ حمد و ثنا سے آیا ہوں
مجھے سنبھال کے رکھ شہر بے لحاظ کہ میں
کسی فقیر منش کی دعا سے آیا ہوں
زوال عہد تو شاید مجھے نہ پہچانے
میں اک حوالہ ہوں اور کربلا سے آیا ہوں
غزل
حدود جاں میں حد نارسا سے آیا ہوں
خاور اعجاز