حدود اکل و شرب کا سوال ہی نہیں رہا
دلوں میں خوف رب ذو الجلال ہی نہیں رہا
مآل عرض حال کا ملال ہی نہیں رہا
وہ بزم غیر تھی مجھے خیال ہی نہیں رہا
جبھی تو باغباں کی گفتگو میں جھول دیکھتے
کبھی کسی طرح کا احتمال ہی نہیں رہا
یہ وسوسہ کی بات اپنے منہ سے مت نکالئے
کوئی شریک حال پر ملال ہی نہیں رہا
جلال کو بھی وقت نے سمو دیا ہے شعر میں
غزل کا مطمح نظر جمال ہی نہیں رہا
تسلیوں کے ذیل میں دلا رہے ہو یاد کیوں
تباہیوں کا جب مجھے خیال ہی نہیں رہا
مرے بیان حال درد دل میں چارہ کار نے
وہ رنگ بھر دیا کہ میرا حال ہی نہیں رہا
جہاں شباب و شغل مے نے کھو دئیے تھے ہوش تک
میں بن پیے اٹھا تو کچھ کمال ہی نہیں رہا
خدائے کار ساز کے کرم سے شادؔ عارفی
کبھی مجھے سلیقۂ سوال ہی نہیں رہا
غزل
حدود اکل و شرب کا سوال ہی نہیں رہا
شاد عارفی